ads slot

Latest Posts:

How an illiterate woman wrote love letters to her migrant husband in 1973

How an illiterate woman wrote love letters to her migrant husband in 1973

روم (نیوز ڈیسک) آج ہم اپنے دوستوں اور عزیزوں سے رابطہ کرنے کیلئے موبائل فون، ای میل، فیس بک اور سکائپ جیسی سہولتوں کا استعمال کرتے ہیں، مگر کبھی صرف خط کے ذریعے ہی رابطہ ممکن ہوتا تھا، اور تصور کریں کہ جو لوگ لکھنا بھی نہیں جانتے تھے وہ اپنے پیاروں سے رابطہ کیسے کرتے ہوں گے اور اپنا مدعا کیسے بیان کرتے ہوں گے۔ تو جناب ایسا نہیں کہ وہ لوگ اپنے پیاروں سے رابطہ نہیں کرپاتے تھے، وہ ایسا بخوبی کرتے تھے، البتہ ان ان کے خطوط ذرا منفرد طرح کے تھے۔ اطالوی جریدے سسلی پر بسنے والی ایک خاتون کا ایک ایسا ہی پیچیدہ خط حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے جسے تصویری زبان میں لکھا گیا ہے۔ شائد آپ سمجھیں کہ یہ بے ربط تصاویر ہیں، لیکن مصنف گیسالڈوبغالینو نے اب اس خط کا ترجمہ دنیا کے سامنے پیش کردیا ہے۔ گیسالڈو کہتے ہیں کہ تین بچوں کی ماں اس خاتون کا خاوند کام کی غرض سے جرمنی گیا ہوا تھا، جس سے دل کی باتیں کرنے اور حال احوال سے آگاہ کرنے کے لئے یہ خط لکھا گیا۔ خاتون کے تصویری خط کا ترجمہ کچھ یوں ہے۔

”میرے پیارے، تمہاری جدائی میں دل بے قرار ہے۔ میں اور تینوں بچے تمہارے لئے بانہیں پھیلائے ہوئے ہیں۔ سب اچھے ہیں، میں اور بڑے دو، بس چھوٹا ذرا بیمار ہے۔ پچھلے خط کا جواب نہیں آیا۔ تمہاری ماں بیمار ہے، ہسپتال میں ہے۔ میں اس کی عیادت کو جاتی ہوں۔ فکر نہ کرو خالی ہاتھ نہیں جاتی کہ لوگ باتیں بنائیں۔ منجھلا بیٹا میرے ساتھ جاتا ہے، جبکہ بڑا چھوٹے کا خیال رکھتا ہے۔ کھیت میں ہل چلوا کر بوائی کروادی ہے۔ روزانہ کام کرنے والے دو ملازموں کو ڈیڑھ لاکھ لیرا (اطلالوی کرنسی) دئیے ہیں۔ گاﺅں میں الیکشن ہوگئے ہیں۔ میں نے مسیحی جمہوریت کے حق میں ووٹ ڈالا ہے۔ کمیونسٹوں کو تو بہت بری شکست ہوئی ہے۔ اس دفعہ زیتون کی فصل بہت اچھی ہوئی ہے۔ کرسمس قریب ہے، تم اور بھی شدت سے یاد آتے ہو۔ میری اور بچوں کی طرف سے پیار۔ میں تمہاری ہوں، میں اور تم یوں یکجان ہیں جیسے ہماری دو انگوٹھیاں آپس میں جڑی ہیں۔
Share on Google Plus

About Unknown

Information and Knowledge offers information regarding Health and Fitness, Science, Sports, Information Technology, Entertainment, Jobs, Videos and much more.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment